سوشل میڈیا ، شعور یا انتشار؟

سوشل میڈیا: شعور یا انتشار؟
تحریر : اقراء رشید ایڈووکیٹ
صبح کی اذان سے پہلے نوٹیفکیشن جگا دیتا ہے اور رات گئے تک اسکرین آنکھوں پر پہرا دیتی ہے؛ آج کا نوجوان اب خبریں، رائے سازی اور تفریح سب کچھ اسی چھوٹی سی اسکرین سے لیتا ہے۔ سوال مگر قائم ہے: کیا یہ اسکرین شعور پیدا کر رہی ہے یا انتشار بڑھا رہی ہے؟
پاکستان کی ڈیجیٹل تصویر یہ ہے کہ 2024 کے آغاز میں انٹرنیٹ صارفین 11 کروڑ سے زائد اور سوشل میڈیا یوزرز تقریباً 7 کروڑ 17 لاکھ تھے۔ ایک طالب علم کی پوسٹ بھی قومی بحث چھیڑ سکتی ہے۔ مگر یہی وسعت، غلط معلومات اور جذباتی پولرائزیشن کو بھی رفتار دیتی ہے۔
ایک طرف سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو فوری معلومات تک رسائی دی ہے۔ آج کا طالب علم یا عام نوجوان دنیا کے کسی بھی کونے سے تازہ خبریں، تعلیمی مواقع، اور جدید سوچ سے چند سیکنڈز میں واقف ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی و سماجی شعور میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوان اپنی رائے کھل کر دیتے ہیں، ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ شعور کا وہ رخ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مگر دوسری طرف یہی سوشل میڈیا نوجوان کو انتشار اور بے سمتی کی طرف بھی لے جا رہا ہے۔ جعلی خبروں (فیک نیوز)، غیر مصدقہ مواد اور اشتعال انگیز پروپیگنڈا کے باعث نوجوان ذہنی دباؤ، نفسیاتی انتشار اور عدم برداشت کا شکار ہو رہے ہیں۔ لائکس اور فالوورز کی دوڑ نے عملی زندگی کے مقاصد کو کمزور کر دیا ہے۔ اخلاقی اقدار اور ذاتی تعلقات بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
بین الاقوامی تحقیق بتاتی ہے کہ سوشل میڈیا “خود” نہ اچھا ہے نہ بُرا؛ اصل مسئلہ استعمال کے طریقے، وقت، اور مواد کی نوعیت ہے۔
امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (APA) نے نو عمر صارفین کے لیے رہنما اصول جاری کیے جن میں الگو رتھمک فیڈز، نفرت انگیز مواد اور آن لائن امتیاز کی نمائش کو بے چینی اور ڈپریشن کے خطرات سے جوڑا گیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی ادارے اور والدین نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تربیت دیں۔ سونے سے پہلے موبائل بند کرنے کی عادت، معلومات کی تصدیق کرنے کا شعور، اور آن لائن ذمہ داری اپنانا یہ سب وہ چھوٹے قدم ہیں جو بڑے مسائل کو روک سکتے ہیں۔ اگر یہ نسل درست سمت میں آگے بڑھی تو سوشل میڈیا پاکستان کے لیے ترقی کا ذریعہ بن سکتا ہے، ورنہ یہ نوجوانوں کے ذہنی سکون اور قومی یکجہتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر کھڑا رہے گا۔
آخر میں یہی کہوں گی کہ سوشل میڈیا تلوار ہے۔ ہاتھ مضبوط ہوا تو شعور کا راستہ کاٹے گا، ورنہ انتشار کی رسی میں خود ہی الجھ جائیں گے۔ انتخاب ہمارے نوجوان کے ہاتھ میں ہے؛ ہمیں صرف روشنی تھامنے کی تربیت دینی ہے۔
پاکستان کا مستقبل انہی نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو آج اسکرین کے سامنے بیٹھے ہیں۔ اگر یہ نسل سوشل میڈیا کو حقیقت کی کھڑکی بنائے گی تو قوم کو نئی سوچ، نئی توانائی اور نئی راہیں ملیں گی، لیکن اگر یہ صرف شور، افواہوں اور بے سمتی کے پیچھے چل پڑی تو آنے والا کل بھی الجھنوں کا اسیر ہوگا۔ فرق صرف ایک انتخاب کا ہے: شعور کا یا انتشار کا۔
نوٹ: امید نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blogs@umeednews.com ای میل یا ہمارے Whatsapp 009233337898559 پر سینڈ کردیجیے۔