اصلاحات یا افسر شاہی کا کھیل؟

Waseem Rayaz col

جینکو ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک — اصلاحات یا افسر شاہی کا کھیل؟

تحریر:وسیم ریاض( بیوروچیف امید نیوز اسلام آباد،ڈیجیٹل میڈیا ہیڈ اینڈ ایچ آر ایم آئی ایس گروپ آف کمپنیز)

پاکستان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے دعوے اس وقت افسر شاہی کی من مانی اور ادارہ جاتی بدانتظامی کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ جینکو پاور ہاؤسز کی بندش اور ملازمین کی ڈسکوز میں منتقلی کے بعد جس بے رحمانہ انداز میں عملدرآمد کیا گیا ہے، وہ صرف ایک پالیسی کی ناکامی نہیں بلکہ ہزاروں خاندانوں کی زندگیوں سے جڑا ہوا ایک سنگین انسانی مسئلہ ہے۔

اصلاحات کے نام پر وعدہ خلافیاں

جب جینکو ملازمین کو ڈسکوز میں ایڈجسٹ کرنے کی بات کی گئی، تو وزارتِ توانائی کی طرف سے نہ صرف مکمل سروس تحفظ، سیم اسکیل اور تنخواہوں کا تسلسل وعدہ کیا گیا، بلکہ انٹرویوز کے دوران یہ بات بھی صاف طور پر کہی گئی کہ ہر ملازم کی پوسٹنگ اس کے ڈومیسائل ایریا میں ہوگی تاکہ خاندان متاثر نہ ہو۔لیکن جیسے ہی منتقلی ہوئی، یہ تمام وعدے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیے گئے۔کئی ملازمین کو ان کے ڈومیسائل سے سینکڑوں کلومیٹر دور تعینات کر دیا گیا،بعض کو انتہائی دور دراز، پسماندہ اور غیر محفوظ علاقوں میں بھیج دیا گیا،اور بہت سے ملازمین کے تو تاحال ایڈجسٹمنٹ آرڈرز ہی جاری نہیں کیے گئے۔یہ تمام صورتحال ایک بڑے سوال کو جنم دیتی ہے: کیا یہ اصلاحات ہیں یا ادارہ جاتی ناانصافی کا نیا نام؟
سب سے زیادہ شکایات میپکو (Multan Electric Power Company) سے موصول ہو رہی ہیں، جہاں افسران نے وزارتِ توانائی کے واضح فیصلوں کے باوجود ملازمین کو نہ صرف ان کے اصل سکیل پر ایڈجسٹ کرنے سے انکار کیا بلکہ کچھ ملازمین کے آرڈرز روک کر انہیں بے روزگاری اور ذہنی اذیت کا شکار بنا دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ میپکو کے افسران قومی پالیسی پر ذاتی مرضی مسلط کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف حکومتی رٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ انتظامی نظام پر بھی ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔
تین ماہ سے تنخواہیں بند — خاندان فاقہ کشی کی دہلیز پر
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب بیشتر ملازمین کو ایڈجسٹمنٹ کے تین ماہ بعد بھی تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔ ان کے گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں، بچوں کی تعلیم متاثر ہو چکی ہے، اور گھریلو اخراجات کے لیے قرض لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت صرف بیانات سے آگے بڑھ کر سخت عملی اقدامات کرے:
وزارتِ توانائی کے تمام فیصلوں پر فوری اور مکمل عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔تمام ملازمین کو سیم اسکیل، مکمل مراعات، اور تنخواہوں کے تسلسل کے ساتھ ایڈجسٹ کیا جائے۔ جن افسران نے حکومتی فیصلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے من مانی اور تعصب کا مظاہرہ کیا، ان کے خلاف فوری اور مثالی تادیبی کارروائی کی جائے۔تمام ملازمین کو ان کے ڈومیسائل ایریا میں پوسٹ کیا جائے جیسا کہ انٹرویوز میں وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ ملازمین جن کے آرڈرز تاحال جاری نہیں کیے گئے، ان کا مسئلہ فوری حل کیا جائے۔آئندہ اس قسم کے منتقلی منصوبوں میں شفافیت، تحریری معاہدے، اور ملازمین کی نمائندگی کو لازمی قرار دیا جائے۔
اصلاحات اگر انصاف پر مبنی نہ ہوں، تو وہ صرف ایک طبقے کی قربانی بن جاتی ہیں۔ اگر سرکاری ملازمین ہی اپنے روزگار، سروس تحفظ اور بنیادی حقوق کے لیے سڑکوں پر آ جائیں، تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔
حکومت کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ریاستی اداروں کی آڑ میں استحصال جاری رکھنا چاہتی ہے، یا واقعی اصلاحات کے نام پر انصاف لانا چاہتی ہے۔

 

نوٹ: امید نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blogs@umeednews.com ای میل یا ہمارے Whatsapp 009233337898559 پر سینڈ کردیجیے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے