ایران بہانہ، چین نشانہ

Shaukat Ali Chheena

اصل عالمی سازش: ایران بہانہ، چین نشانہ— موجودہ صورتحال میں ایران کو کیا کرنا چاہئیے؟
تحریر: شوکت علی چھینہ

دنیا کی سیاست اور طاقت کا توازن تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ طاقتور اقوام اپنی حکمتِ عملی میں دانشمندی، تدبر اور دور اندیشی سے کام لے رہی ہیں۔ ایسے میں ایران جو مشرقِ وسطیٰ کا ایک اہم اور تاریخی حیثیت رکھنے والا ملک ہے، ایک غیر یقینی اور کٹھن دوراہے پر کھڑا ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایران کے سامنے دو راستے ہیں:


ایک وہی پرانی پالیسی جس کے تحت وہ پراکسی جنگوں، خطے میں عسکری مداخلت اور جوہری ہتھیاروں کے حصول کی خواہش میں اپنے وسائل جھونکتا رہے، اور دوسرا راستہ وہ جو چین کی طرز پر معاشی ترقی، علاقائی تعاون اور عالمی امن میں اپنا تعمیری کردار ادا کرے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایران ہوشمندی سے دوسرا راستہ اختیار کرے، اور اپنی قومی طاقت، معیشت اور استحکام کو مرکزِ نگاہ بنائے۔

چین گزشتہ تین دہائیوں میں عالمی سیاست کا سب سے کامیاب اور ہوشمند کردار رہا ہے۔ اس نے کبھی کسی پراکسی جنگ میں حصہ نہیں لیا، کسی ہمسایہ ملک میں عسکری مداخلت نہیں کی اور نہ ہی اپنے نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر خطے کو عدم استحکام کا شکار بنایا۔ چین نے اپنی ساری توجہ معیشت، سائنسی ترقی، تعلیم، ٹیکنالوجی اور سفارت کاری پر رکھی، اور آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور سب سے زیادہ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والا ملک بن چکا ہے۔ایران بھی چاہے تو اسی حکمتِ عملی سے اپنی بقا، سلامتی اور ترقی کا سفر طے کر سکتا ہے۔

ایران کی پراکسی وارز: نقصانات اور ممکنہ خطرات
مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی پراکسی سرگرمیوں نے اگرچہ وقتی طور پر بعض اسٹریٹجک فوائد ضرور دیے، مگر اس کے طویل المدتی اثرات نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔
عراق، شام، لبنان، یمن، اور بحرین میں ایران کی عسکری مداخلت اور ملیشیاو¿ں کی سرپرستی نے خطے کو بدامنی، مسلکی جنگ اور انسانی بحران سے دوچار کیا۔
امریکہ اور اسرائیل کو اسی بہانے ایران کے خلاف عرب ممالک کا اتحاد بنانے کا موقع ملا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت جیسے ممالک کو مسلسل ایران کے خلاف بدگمانی میں مبتلا رکھا گیا، اور ان پر امریکی اسلحہ اور دفاعی معاہدوں کا دباو¿ بڑھایا گیا۔

 

اصل عالمی سازش: ایران بہانہ، چین نشانہ
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک پر تو اپنا تسلط جما چکا ہے اوراب اسرائیل ایران کے ساتھ ممکنہ جنگ کے ذریعے دراصل چین کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ ایران پر اثرورسوخ یا تسلط قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ چین کی توانائی سپلائی لائن براہِ راست امریکی اور اسرائیلی گرفت میں آ جائے گی۔
ایران، چین کی توانائی کی ضروریات کا ایک اہم ذریعہ ہے، اور چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ (Belt & Road Initiative) بھی ایران سے ہو کر گزرتا ہے۔ اگر امریکہ، عراق اور کویت کی طرح ایران پر بھی قبضہ جما لے تو وہ مشرقِ وسطیٰ کے اہم زمینی و بحری راستوں پر حاوی ہو جائے گا۔ یوں چین کی تیل و گیس کی فراہمی، مشرقِ وسطیٰ میں اس کی سرمایہ کاری اور عالمی منڈی تک رسائی سب کچھ امریکہ کے شکنجے میں آ جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایران کو مستقل اشتعال دلاتے ہیں تاکہ ایک بڑی جنگ چھیڑ کر خطے کو غیر مستحکم کریں، عرب ممالک کو ایران کے خلاف استعمال کریں اور بعد ازاں خود وہاں بیٹھ کر چین کا معاشی راستہ بند کر دیں۔

ایران کو کیا کرنا چاہئیے؟

1 -پراکسی جنگوں سے مکمل دستبرداری
ایران کو فوری طور پر عراق، شام، لبنان، یمن اور بحرین میں اپنی عسکری مداخلت اور پراکسی سرگرمیاں بند کر کے مقامی حکومتوں کو خودمختاری دینی چاہیے اور اپنے وسائل ان جنگوں میں جھونکنے کے بجائے عوامی بہبود، معیشت، صحت، تعلیم اور سائنسی تحقیق پر صرف کرے۔

2 -جوہری پروگرام فریز کرنا اور امریکی ڈیل
ایران کو وقتی طور پر اپنا جوہری پروگرام فریز کرنا چاہیے، تاکہ عالمی پابندیاں ختم ہوں، معیشت بحال ہو اور عالمی برادری میں اعتماد بحال کیا جا سکے۔ جوہری طاقت کا حصول تب سودمند ہو گا جب ملک معاشی طور پر مستحکم اور سفارتی طور پر مضبوط ہو۔
امریکہ کے ساتھ حقیقت پسندانہ مذاکرات کرنے چاہیے، اور زیادہ سے زیادہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے عالمی سطح پر خود کو ایک ذمہ دار ریاست ثابت کرے۔

3 -سعودی عرب سمیت پوری عرب دنیا سے اعتماد پر مبنی تعلقات
ایران کو چاہئے کہ وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، عمان، قطر، کویت اور اردن کے ساتھ کھلے دل سے مذاکرات کرے، مسلکی اور سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشی اور ثقافتی تعاون کو فروغ دے۔
کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ خطے میں اپنی موجودگی کا جواز اسی بنیاد پر پیدا کرتا ہے کہ عرب ممالک کو ایران سے خطرہ لاحق ہے۔ اگر ایران اپنے ہمسایوں کو دوست بنا لے، تو امریکہ کے خطے میں رہنے کا جواز خود بخود ختم ہو جائے گا۔

4 -معاشی و سائنسی ترقی پر مکمل توجہ
ایران کے پاس بے پناہ قدرتی وسائل، تیل و گیس کے ذخائر، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان، اور قدیم تہذیب ہے۔ ایران اگر اپنی معاشی، سائنسی، اور تکنیکی ترقی پر توجہ دے تو چند ہی برس میں نہ صرف خطے بلکہ دنیا کی بڑی طاقتوں میں شامل ہو سکتا ہے۔

5 -عالمی سفارت کاری میں مثبت کردار
ایران کو چاہئے کہ وہ چین، روس، ترکی، بھارت، یورپی یونین اور حتیٰ کہ امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات کو متوازن اور حقیقت پسندانہ رکھے۔ چین کی طرز پر غیر جانبداری، اقتصادی شراکت داری اور ثقافتی روابط کو ترجیح دے۔

موجودہ عالمی اور علاقائی صورتحال میں ایران کے لیے یہی واحد راستہ ہے جو اس کی سلامتی، خودمختاری، ترقی اور عالمی وقار کی ضمانت دے سکتا ہے۔
اگر ایران وقت رہتے دانشمندی کا مظاہرہ کرے اور پراکسی جنگوں کے دلدل سے نکل کر چین کی طرز پر قومی ترقی و خوشحالی کو اپنا مرکز بنائے، تو نہ صرف ایران بلکہ پورا مشرق وسطیٰ ایک بار پھر امن اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
بصورتِ دیگر، اگر خدانخواستہ ایران کسی بڑی جنگ کا شکار ہوا تو اس کے اثرات عراق، شام، لبنان، یمن، پاکستان، افغانستان اور خلیجی ممالک تک پھیل سکتے ہیں، اور امریکہ اپنی مستقل موجودگی کے ذریعے چین کے گرد معاشی و عسکری گھیرا مکمل کر لے گا — جو عالمی طاقت کا توازن یکطرفہ بنانے کی خطرناک سازش ہو گی۔

 

نوٹ: امید نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blogs@umeednews.com ای میل یا ہمارے Whatsapp 009233337898559 پر سینڈ کردیجیے۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے